اداس ہے تیری چاہتوں کا باغباں
اداس ہے ہر شام ہر گلی ہے سناں
ذرا سنو:
بات میرے غمگیں آشیانے
کی تم بن یہ کومل سے پہول بہی اداس ہیں تیرے جانے سے یوں نہ لگا کہ تم چلی گئی بعد تیرے جانے کے سکوں اے زندگی ہم سے روٹھ گیا راتوں کی نیند بہی آنکہوں سے خفا ہوگئی سوچا تہا تم چلے آؤ گے مجھ بن کہاں جئ سکوگے یوں روٹہنا تو پہلے بہی تہی عادت تیری کبہی تم مان جایا کرتے تہے تو کبہی ہم منا لیا کرتے تہے نہ جانے اب کہ بار ہمیں کیوں منانا نہ آیا یوں سوچا نہ تہا کہ ایسے ہی روٹھ جاؤگے
اے ہمسفر:-
تیرے جانے کے بعد ہمارے ہونٹوں سے مسکراہٹیں ہی بچہڑ گئی بن تیرے مسکرانہ ہی بہول سا گئے ہیں نظریں اٹہا کر آکاش کو دیکھ کر خد سے باتیں کرنا ہی بہول سا گئےہیں جو کبہی زندگی کو گلشن کی ماند سمجہتے تہے آج اسی ویراں گلشن میں خد کو تنہا تصور کرتا ہوں یوں تو سب کہ لیئے ہے جشن زندگی
بس تیرے بن یہ گلشن بہی ویران سا ہے کبہی بہول جاتا ہوں کے کل ہی تو بچہڑے ہیں پہر فرست میں سوچتا ہوں تو مدتیں ہوئی تیرے بچہڑنے کو اب تیرے لوٹنے کے خوابوں سے بہی دل کو راحت کے پل میسر نہیں ہیں
اے جانِ جہاں:--
تیرے روٹھ جانے کے بعد یہ زندگی کا گلشن بہی ہم سے روٹھ چلا ہے ان نم اور اداس آنکہوں میں تیری جدائی کہ آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں ہے باقی بس تیری یادوں کے مایوس آغوش میں ہر وقت یہ آنکہیں نم اور دل غموں کے ایندھن میں سلگ رہا ہے
اے دلِ نشیں:--
اب بس تیری یادوں کہ سہارے کبہی جئ رہا ہوں تو کبہی مر رہا ہوں اب زندگی میں مزید زندہ رہینے کی خواہیشیں زہر سی لگتی ہیں جس زندگی میں تمہارے ہونے کا احساس نہ ہو وہ زندگی سوائے اندھیرے کے کچھ نہیں ہے جب جب بہی تیری یادیں ستاتی ہیں تو اداسیوں و مایوسیوں کے گہرے سمندر میں خد کو کہو دیتا ہوں آج بہی جب تیرے چہرے کے عکس دل کی دھڑکنوں میں محسوس کیئے تو بہت دل نے چاہا کہ یہ پل یہ تیرے روشن عکس کسی کاغذ پر قلم بند کر لوں کہ جب تیرے چہرے کی جہلک دیکہنے کو دل ترسے تو ان روشن عکس سے دل کو سکوں دلا سکوں جب کاغذ اور قلم لے کر تیرے چہرے کہ عکس کی چہاپ سنورنے لگا تو تیری جدائی کی پرچہائیوں نے آنکہوں سے آنسوؤں کی لڑی کہول دی جیسے بن موسم کے برسات کی طرح یوں برسنے لگی آنکہیں کے جیسے پورا آنسوؤں کا سمندر امنڈ آیا ہو آنسوؤں کی رم جہم برسات کے کتروں کی طرح گالوں کے ساحل سے پار ہوتی ہوئی کاغذ پر گرنے لگیں یوں جو کاغذ کو دیکہا تو خد کے آنسوؤں سے بہیگ گیا سوچا کہ بس یہ آنسوؤ رک جائیں مگر تیری سوچوں کی کشتیاں دل کے دامن میں بہری ہوئی تہیں یہاں تک کے تیری جفاؤں کے وہ لمحے و پل دل سے آنسؤ بن کر بہئے گئے تمہارے ساتھ گزرے وہ پل تمہارے ساتھ وہ چہپا چہپی کہیلنا وہ تیرا نازوں سے ٹہر ٹہر کر مسکرانہ
وہ تیرا چہوٹی چہوٹی باتوں پر روٹھ جانا پہر خد ہی پرانی باتیں بہول کر مجھے اداس دیکھ کر میرے سینے لپٹ جانا وہ کبہی غسہ تو کبہی مزاک مستی میں جہوم اٹہنا کبہی میرا ھاتھ پکڑ کر دہیمی آواز میں کہینا کہ مجھ سے کبہی جدا مت ہونا جئ نہیں پاؤنگی تم سے جو بیچہڑی تو مر جاؤنگی بس یہ باتیں باقی رہے چکی ہیں تیری
خد کو زندہ رکہنے کے لیئے کل جو مجھ سے بیچہڑ جانے کو ڈرا کرتی تہی تم آج تیرا روٹھ جانا میرا زندگی بہر کا اندہیرا بن چکا ہے اب تم بن کہاں سے لاؤں اجالا اپنی زندگی میں اجالا بہی تہا تم سے میرے محسن
تیرے بن تو اب اجالے سے بہی خوف زدہ سا ہو جاتا ہوں پہر بہی تم سے کوئی شکوہ نہیں یہ گلشن تم بن آج بہی ویراں ہے جب بہی یہ میرا لکہا پڑھ کر تمہارے دل میں اس ویراں گلشن کو آباد کرنے کی جو خواہش جاگ اٹہے تو چلی آنا لوٹ آنا
میری یہ اداس آنکہیں و پریشان دل جب تک زندہ ہیں تمہارے آنے کی امید میں جاگتی رہینگی آخر تک انتظار رھے گا جب تک سانس میں سانس باقی ھوگی

Nice
ReplyDeleteWeldon
ReplyDelete