Description

Pak vs bangladesh Asia world cup 2023

 بدھ کو لاہور قذافی اسٹیڈیم میں ایشیا کپ کے سپر 4 کے میچ میں بنگلہ دیش کے خلاف 24ویں اوور کے اختتام پر پاکستان کا سکور 105/2 ہے۔  پاکستان 194 رنز کے ہدف کا تعاقب کر رہا ہے ۔پاک بمقابلہ بنگلادیش کپ: امام-رضوان جوڑی نے تعاقب جاری رکھتے ہوئے گرین شرٹس کو 100 سے اوپر لے لیا پاکستان کی اننگز   پاکستان کا تعاقب 16 ویں اوور تک جاری رہا لیکن فخر زمان اور بابر اعظم کے بغیر، جو ایک آن پوائنٹ تسکین احمد کے ہاتھوں غیر رسمی طور پر بولڈ ہو گئے۔  لیکن گرین شرٹس ابھی تک تعاقب میں ٹریک پر ہیں، امام الحق اچھی طرح سے سیٹل ہیں اور رضوان احمد ان کی جگہ کپتان ہیں۔  کیا پاکستان ایسی گیند کے ساتھ تعاقب کو برقرار رکھ سکے گا جو رات ڈھلنے کے ساتھ ساتھ زیادہ ٹرن کرتی ہے؟  اوور 16-20  تسکین نے بابر کو ایک ڈیلیوری سے ہٹا دیا جو کم رہی۔  قذافی سٹیڈیم کے ناہموار باؤنس نے دنیا کے نمبر ایک بلے باز کے لیے یہ کر دکھایا۔  رضوان بیٹنگ کے لیے اترے کے طور پر پیسر کی ج...

خودکشی کا بڑھتا رجحان

‏معاشرے میں خود کشی کا بڑھتا ھوا رجحان ھم سب کے لئے بہت بڑا المیہ ھے۔ آج اگر اسکے تدارک کے لئے کوشاں نا ھوئےتو ہر گھر کا اس جرم کی آگ میں جلنا معمول بن جائے گا ہر فرد اپنے اپنے میسر پلیٹ فارم پر ایک آگاہی مہم کا آغاز کرے۔ سکول کالج مدارس اور یونیورسٹیز میں "خودکشی ایک لعنت " کے عنوان سے سیمینار منعقد کئیے جائیں تاکہ اس جرم کی سزا اور تباہ کاری کے متعلق ہر نوجوان آگاہ ھو سکے معزز والدین اولاد کی تربیت میں اس پہلو کو بھی خصوصی طور پر مدنظر رکھیں۔ شام کھانے کے وقت بچوں کو بٹھا کر انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرائیں اور اس جرم کے مرتکب ھونے پر ھمیشہ دوزخ کی آگ میں جلتے رہنے کی وعید بار بار سنائیں 1۔ خود کشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فعل حرام ہے۔ اِس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔ قرآن و حدیث کے دلائل پر بحث سے قبل آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلام نے اسے اتنا بڑا جرم کیوں قرار دیا۔ درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت اور کسبی نہیں بلکہ اﷲ عزوجل کی عطا کردہ امانت ہیں۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند بنایا ہے کہ وہ بہر صورت زندگی کی حفاظت کریں۔ اسلام نے ان اسباب کے تدارک پر مبنی تعلیمات بھی اسی لیے دی ہیں تاکہ انسانی زندگی پوری حفاظت و توانائی کے ساتھ کارخانۂ قدرت کے لیے کار آمد رہے۔ یہی وجہ ہے اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے۔ اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی ہرگزاجازت نہیں دیتا۔ 2۔ قرآن و حدیث میں خودکشی کی ممانعت جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ زندگی اور موت کا مالک حقیقی اﷲ تعالیٰ ہے۔ جس طرح کسی دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، اُسی طرح اپنی زندگی کو ختم کرنا یا اسے بلاوجہ ہلاکت میں ڈالنا بھی اﷲ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ فعل ہے۔ ارشاد ربانی ہے : وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْکُمْ اِلَی التَّهْلُکَةِج وَاَحْسِنُوْاج اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَo البقرة، 2 : 195 ’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبان احسان بنو، بے شک اﷲ احسان والوں سے محبت فرماتا ہےo‘‘ امام بغوی نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 30 کی تفسیر کرتے ھوئے لکھا کہ اس سے مراد خود کشی کرنا ھے ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْط اِنَّ اﷲَ کَانَ بِکُمْ رَحِيْمًاo وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيْهِ نَارًاط وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اﷲِ يَسِيْرًاo النساء، 4 : 29، 30 ’’اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اﷲ تم پر مہربان ہےo اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اﷲ پر بالکل آسان ہےo‘‘ ’’(اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو)۔ یہ آیت مبارکہ کسی شخص کو ناحق قتل کرنے اور خودکشی کرنے کی ممانعت پر دلیل شرعی کا حکم رکھتی ہے۔‘‘ احادیث مبارکہ میں بھی خود کشی کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَيْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِکَ عَلَيْکَ حَقًّا. بخاری، الصحيح، کتاب الصوم ’’تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔‘‘ 3۔ خودکش دہرے عذاب کا مستحق ہے احادیث مبارکہ میں حضور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خودکشی کے مرتکب شخص کو دُہرے عذاب کی وعید سنائی ہے۔ ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ ہوں : 2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : الَّذِي يَطْعَنُ نَفْسَهُ إِنَّمَا يَطْعَنُهَا فِي النَّارِ، وَالَّذِي يَتَقَحَّمُ فِيْهَا يَتَقَحَّمُ فِي النَّارِ، وَالَّذِي يَخْنُقُ نَفْسَهُ يَخْنُقُهَا فِي النَّارِ. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اپنی جان کو کوئی چیز چبا کر ختم کر لیتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی (ہمیشہ) اسی طرح خود کو ختم کرتا رہے گا، اس طرح جو شخص اپنی جان کو گڑھے وغیرہ میں پھینک کر ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا، اور جو شخص اپنی جان کو پھانسی کے ذریعے ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا۔‘‘ 3. عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاکِ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيئٍ عُذِّبَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ. ‏’’حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے کسی بھی چیز کے ساتھ خود کشی کی تو وہ جہنم کی آگ میں (ہمیشہ) اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جاتا رہے گا۔‘‘ خودکشی کا ارتکاب کرنے والوں اور اس پر اُکسانے والوں کے لیے یہ احادیثِ صحیحہ نہایت غور طلب ہیں۔ 5۔ خود کشی کرنے والے پر جنت حرام ہے اﷲ تعالیٰ نے خود کشی کرنے والے کے لیے جہنم کی دائمی سزا مقرر کی ہے۔ ﷲ نے ایسا کرنے والوں کے لیے حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ فرما کر جنت حرام فرما دی ’’تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی زخمی ہو گیا۔ اس نے بے قرار ہوکر چھری لی اور اپنا زخمی ہاتھ کاٹ ڈالا۔ جس سے اس کا اتنا خون بہا کہ وہ مرگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میرے بندے نے خود فیصلہ کر کے میرے حکم پر سبقت کی ہے، لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔‘‘ 2۔ حضرت حسن بصری حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’پچھلی امتوں میں سے کسی شخص کے جسم پر ایک پھوڑا نکلا، جب اس میں زیادہ تکلیف محسوس ہونے لگی تو اس نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر اس پھوڑے کو چیر ڈالا جس سے مسلسل خون بہنے لگا اور نہ رکا۔ اس کی وجہ سے وہ شخص مر گیا۔ تمہارے رب نے فرمایا : میں نے اس پر جنت حرام کر دی ہے۔‘‘ مذکورہ بالا روایات میں اِس امر کی بھی اِجازت نہیں دی گئی کہ اگر کسی کو کوئی تکلیف یا مرض لاحق ہوجائے تو وہ اس تکلیف سے چھٹکارا پانے کی غرض سے ہی اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو اس کا یہ عمل مقبول نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے باعث جہنم بنے گا۔ 6۔ دوران جہاد بھی خودکشی کرنے والا جہنمی ہے احادیث مبارکہ میں ہے کہ کسی غزوہ کے دوران میں مسلمانوں میں سے ایک شخص نے خوب بہادری سے جنگ کی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کی شجاعت اور ہمت کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علمِ نبوت سے انہیں آگاہ فرما دیا کہ وہ شخص دوزخی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ سن کر بہت حیران ہوئے۔ بالآخر جب اس شخص نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خود کشی کرلی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ خود کشی کرنے والا چاہے بظاہر کتنا ہی جری و بہادر اور مجاہد فی سبیل اﷲ کیوں نہ ہو، وہ ہرگز جنتی نہیں ہو سکتا۔ 7۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی خود کشی کس قدر سنگین جرم ہے اس کا اندازہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس عمل مبارک سے ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سراپا رحمت ہونے کے باوُجود خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اپنے بد ترین دشمنوں کے لیے بھی دعا فرمائی، اور جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح حکم نہیں آگیا کسی منافق کی نماز جنازہ پڑھانے سے بھی انکار نہیں فرمایا۔ اس حوالے سے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیں : 1. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ : أُتِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ ’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو نیزے سے ہلاک کر لیا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی عَنِ ابْنِ سَمُرَةَ أَنَّ رَجُلًا قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ، فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَمَّا أَنَا فَلَا أُصَلِّي عَلَيْہ ’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے تیر کے ذریعے خودکشی کرلی تو حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھاؤں گا۔‘‘ ﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک سلمان اور مومن صرف وہی شخص ہے جو نہ صرف تمام انسانیت کے لئے پیکر امن و سلامتی اور باعث خیر و عافیت ہو بلکہ وہ امن و آشتی، تحمل و برداشت، بقاء باہمی اور احترام آدمیت جیسے اوصاف سے متصف بھی ہو۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی امن و سلامتی کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام میں کسی انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اِس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو بھی پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیاہے۔ قتلِعمد کی سزا موت ہے۔ مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کے لیے شدید اور دردناک عذاب کی وعید ہے۔ جب اسلام کسی ایک فرد کے قتل کی اجازت کسی دوسرے فرد کو نہیں دیتا تو خود اپنے آپکو ہلاک کرنے کی اجازت کیسے دے سکتا ھے ؟؟؟؟

Comments