ایک بادشاہ نے اپنے ایک مشیر خاص کو حکم دیا۔ بازار جاؤ، اور قصاب کے وزن کرنے والے باٹ چیک کرو۔ اور جن کے باٹ وزن کے اعتبار سے کم ہوں۔ یعنی وہ کم تولنے کے مجرم ہوں۔ تو انکو گرفتار کرکے میرے سامنے پیش کرو۔
مشیر خاص بازار پہنچا۔
ایک قصاب کا باٹ چیک کیا۔ تو وہ وزن کے اعتبار سے کم نکلا۔ مشیر خاص نے قصاب سے سوال کیا
اور سناؤ، کیسی گزرہی ہے ؟
قصاب بولا۔۔۔ بہت بری گزررہی ہے۔ دل چاہتا ہے یہ گوشت کاٹنے کے چھرے سے اپنی گردن کاٹ ڈالوں۔
مشیر خاص دوسرے قصاب کے پاس پہنچا۔ باٹ ، اسکا بھی تول کے اعتبار سے کم نکلا۔ مشیر نے قصاب سے سوال کیا۔
اور سناؤ کیسی گزررہی ہے ؟
قصاب نے جوابا کہا۔۔۔۔بہت تنگدست ہوں۔ پریشان ہوں۔ کاش کہ اللہ نے پیدا ہی نہ کیا ہوتا۔
غرض یہ کہ مشیر خاص جس قصاب کے پاس گیا۔ اور اسکے باٹ وزن کے اعتبار سے کم نکلے۔ مشیر کے ایک سوال پر وہی قصاب اپنی مصیبتوں، پریشانیوں کا دفتر کھول دیتا۔۔۔!
ایک قصاب کے پاس مشیر نے باٹ دیکھے۔ تو وہ وزن اور تول کے اعتبار سے بلکل صحیح نکلے۔۔۔
مشیر نے اس قصاب سے پوچھا۔۔۔اور سناؤ کیسی گزر رہی ہے۔
قصاب نے کہا۔۔۔۔جناب اللہ کا بڑا شکر ہے۔ عزت سے گزارہ ہورہا ہے۔ گاہکوں میں اعتماد و عزت ہے۔ خریدار مجھہ سے خوش اور مطمئن ہے۔ بیوی بچے نیک و فرمانبردار ہیں۔
مشیر خاص کسی کو بھی گرفتار کئیے بناء دربار شاہی میں پہنچا۔ اور تمام حال بادشاہ کے گوش و گزار کردیا۔
بادشاہ نے ساری بات سنی، اور غصے سے بپھر گیا۔ مشیر سے کہا۔ جب اپنی آنکھوں سے کم تولنے والوں کو دیکھ چکے ہو۔ تو میرے حکم کے مطابق، انکو گرفتار کیوں نہ کیا۔ تاکہ انکو سزا دیجاتی ؟
مشیر خاص نے جواب دیا
حضور ، میں نے انکو گرفتار کرنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں سمجھی۔ آپکو انہیں سزا دینے کی ضرورت ہی نہیں۔
کیونکہ انکی بداعمالی کی سزا انکو اللہ تعالی خود دے رہا ہے۔
یہ اپنے منھہ سے بتارہے ہیں، ہم پریشان ہیں، بے برکتی ہے، دکھہ بیماریاں ہیں۔ دنیا تنگ ہے، بے سکونی ہے۔ کسی کی بیوی سرکش، تو کہیں اولاد بے حس۔
رسولُ اللّٰهﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ
"اس دنیا میں جو سب سے زیادہ پاکیزہ شئے جو تم کھاتے ہو۔ وہ تمہارے ہاتھہ کا کمایا ہوا رزق حلال ہے"
سورۂۃ رحمن جس کو عروس القرآن کہا گیا ہے۔
اس میں تاکید کی گئی ہے کہ
"اور۔۔۔انصاف کے ساتھہ ٹھیک تولو۔ اور ناپ تول میں کمی مت کرو"
اور آخر میں امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کا ایک قول، کہ
"جب کفر والوں کو عروج کی بلندیوں پر دیکھو۔ تو سمجھہ لینا۔ کہ انھوں نے اسلام کو زندگیوں میں اپنالیا ہے۔ اور جب اسلام والوں کو ذلت و پستی کے گڑھوں میں گرا ہوا دیکھو۔
تو سمجھہ لینا کہ انھوں نے کفر کی برائیوں کو اپنالیا ہے"

Comments
Post a Comment